کم سنی میں حضرت عائشہ -رضی الله عنہا- کا نکاح

تحقیق و تجزیہ

 

از:مفتی شکیل منصور القاسمی‏، مجمع عین المعارف للدراسات الاسلامیہ، کنور۔ کیرالہ

 

                حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے ساتھ کم سنی میں ہوا یعنی ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی، اس سلسلہ میں معاندینِ اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبرِ اسلام -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب تھی، چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے زیر نظر مضمون میں اسی کا مفصل ومدلل جواب دیاگیا ہے۔

                سوال: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے ساتھ کم سنی میں ہوا، بیان کیا جاتاہے کہ ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس سلسلہ میں معاندین اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے۔ آپ اس کا تحقیقی و تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو شکرگذار ہوں گا۔ (فاروق عبدالعزیز قریشی رنگ روڈ مہدی پٹنم، حیدرآباد)

                جواب: حضرت عائشہ صدیقہ-رضی الله عنہا- سے جو حضوراکرم -صلى الله علیه وسلم- نے اُن کی کم سنی میں نکاح فرمایا اور پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- (زینب-رضی الله عنہا-) نے تین سال بعد ۹/ سال کی عمر میں رخصتی کردی، اس پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں؛ بلکہ پرانے ہیں، علماء اور محققین نے جوابات بھی دئیے ہیں، تاہم ذیل کی سطروں میں ایک ترتیب کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امید کہ جواب میں تحقیق و تجزیہ کے جو پہلو سامنے آئیں گے، اُن سے ذہنی غبار دھل جائے گا اور ذہن کا مطلع بالکل صاف اور واضح ہوجائے گا۔ اس لیے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے،اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔

                نبی کریم -صلى الله علیه وسلم- ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے، جو تہذیب و تمدن کے ابتدائی درجہ میں تھی آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سپرد اللہ نے صرف یہی کام نہیں کیا تھا کہ اُن کے عقائد وخیالات درست کریں؛ بلکہ یہ خدمت بھی آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سپرد تھی کہ ان کا طرزِ زندگی، بود وباش اور رہن سہن بھی ٹھیک اور درست کریں۔ ان کو انسان بنائیں، انہیں شائستہ اخلاق، پاکیزہ معاشرت، مہذّب تمدن، نیک معاملات اور عمدہ آداب کی تعلیم دیں، یہ مقصد محض وعظ و تلقین اور قیل و قال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا، تیس سال کی مختصر مدتِ حیات میں ایک پوری قوم کو وحشیت کے بہت نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب کے بلند ترین مرتبہ تک پہنچادینا اس طرح ممکن نہ تھاکہ محض مخصوص اوقات میں ان کو بلاکر کچھ زبانی ہدایات دیدی جائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- خود اپنی زندگی میں ان کے سامنے انسانیت کا ایک مکمل ترین نمونہ پیش کرتے اور ان کو پورا موقع دیتے کہ اس نمونہ کو دیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں۔ چنانچہ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے ایسا ہی کیا۔ یہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کا انتہائی ایثار تھا کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے زندگی کے ہر شعبہ کو قوم کی تعلیم کے لیے عام کردیا۔ اپنی کسی چیز کو بھی پرائیویٹ اور مخصوص نہ رکھا۔ حتی کہ ان معاملات کو بھی نہ چھپایا جنھیں دنیا میں کوئی شخص عوام کے لئے کھولنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے اتنا غیر معمولی ایثار اس لئے کیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے لوگوں کو بہترین نمونہ اور عمدہ نظیر مل سکے۔ اسی اندرونی اور خانگی حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے آپ -صلى الله علیه وسلم- نے متعدد نکاح فرمایا۔ تاکہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کی نجی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام ومسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیاء اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواجِ مطہرات-رضی الله عنهن- کے ذریعہ سے ہوجائے۔

                تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ -صلى الله علیه وسلم- کی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضی الله عنہا- کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ -صلى الله علیه وسلم- نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جھنوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی -صلى الله علیه وسلم- کے گھرانے میںآ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے آپ -صلى الله علیه وسلم- کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)

                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانہٴ نبوت تک پہنچادیا گیاتاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور -صلى الله علیه وسلم- کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ-رضی الله عنه- کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔

                بعض مریضانہ ذہن و فکر رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ خلش اور الجھن پائی جاتی ہے کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے اس کم سنی میں نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اور یہ کہ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح کرنا آپ -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھا؟ چنانچہ ایک یہودی مستشرق نے انٹرنیٹ پر اس قسم کا اعتراض بھی اٹھایا ہے اور اس طرح اس نے بعض حقائق و واقعات، سماجی روایات، موسمی حالات اور طبی تحقیقات سے اعراض اور چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح اور رخصتی اس کم سنی میں کیوں کر ہوئی؟

                یہ اعتراض درحقیقت اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں وہ اہلیت وصلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے نکاح کے سلسلہ میں ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں ہے سورہ ”الطلاق“ میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے، واللّائی لم یحضن (المائدہ:۴) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو؛ کیوں کہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹) اس لیے ”واللائی لم یحضن“ سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنھیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص جلد۲، صفحہ ۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد ۷ صفحہ ۱۸)

                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہے۔ دوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ داؤدی نے لکھا ہے کہ وکانت عائشة شبت شبابا حسنا یعنی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی ۴۵۶/۳) حضرت عائشہ کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی، ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھاجو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممدومعاون ثابت ہوئی۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا بیان مذکور ہے کہ ”میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے بہترے تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا“ اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت -صلى الله علیه وسلم- کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردیا ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں ۹/برس میں بالغ نہ ہوتی ہوں تواس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلافِ عادت ۹/برس ہی میں بالغ ہوجائے، جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی بن گئے ہوں اور وہ صرف شکوک و شبہات کے جال بننے کے خوگر ہوں انھیں تویہ واقعہ جہالت یا تجاہل عارفانہ کے طور پر حیرت انگیز بناکر پیش کرے گا؛ لیکن جو ہرطرح کی ذہنی عصبیت و جانبداری کے خول سے باہر نکل کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ہیں۔ سنن دار قطنی میں ہے حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سنین فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان) خودہمارے ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے۔ (دیکھئے اخبار ”مدینہ“ بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)

                جب ہندوستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں سات برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی-رضی الله عنه- نے اپنی لڑکی ام کلثوم کا نکاح عروة بن الزبیر سے اور عروة بن الزبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھتیجے سے اور عبداللہ بن مسعود-رضی الله عنه- کی بیوی نے اپنی لڑکی کا نکاح ابن المسیب بن نخبة سے کم سنی میں کیا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷، صفحہ ۱۸۰)

                ان حضرات کا کم سنی میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کردینا بھی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس وقت بہت معمولی عمر میں ہی بعض لڑکیوں میں شادی وخلوت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی، تو اگر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا نکاح ۶/برس کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحیتیں پیدا نہ ہوئی ہوں۔ جیساکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی والدہ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کیا تھا الغرض شوہر سے ملنے کے لیے ایک عورت میں جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ سب حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں موجود تھیں۔ لہٰذا اب یہ خیال انتہائی فاسد ذہن کا غماز ہوگا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے اعراض اور چشم پوشی کا مترادف ہوگا کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں شادی کرنے کی آپ -صلى الله علیه وسلم- کو کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں حضرت عائشہ کے ماسواء جملہ ازواج مطہرات-رضی الله عنهن- بیوہ، مطلقہ یا شوہر دیدہ تھیں، حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کرلیا گیا تاکہ وہ آپ -صلى الله علیه وسلم- سے زیادہ عرصہ تک اکتسابِ علوم کرسکیں۔ اور حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرت -صلى الله علیه وسلم- کی وفات کے بعد حضرت عائشہ-رضی الله عنہا-(48) اڑتالیس سال زندہ رہیں، زرقانی کی روایت کے مطابق ۶۶ھ میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا انتقال ہوا۔ ۹/برس میں رخصتی ہوئی آپ کے ساتھ ۹/ سال رہیں اور آپ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۸ برس تھی۔ (زرقانی، الاستیعاب) اور صحابہ و تابعین ان کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت وبصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے،اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔ (زرقانی جلد ۳، صفحہ ۲۲۹-۲۳۶)

                حقیقت یہ ہے کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سوا کوئی ایسا آدمی دنیا میں نہیں گزرا جو کامل ۲۳ برس تک ہر وقت، ہر حال میں منظر عام پر زندگی بسر کرلے، سینکڑوں ہزاروں آدمی اس کی ایک ایک حرکت کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں۔ اپنے گھر میں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے بھی اس کی جانچ پڑتال ہورہی ہو اور اتنی گہری تلاش کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کے کیریکٹر پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے؛ بلکہ یہ ثابت ہو کہ جو کچھ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا تھا، خود اس کی اپنی زندگی اس تعلیم کا مکمل نمونہ تھی؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ اس طویل زندگی میں وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی عدل وتقویٰ اور سچائی و پاکیزگی کے معیاری مقام سے نہیں ہٹا؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ قریب سے اس کو دیکھا وہی سب سے زیادہ اس کے گرویدہ اور معتقد ہوئے۔ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

                یہی وجہ ہے کہ انسان کی پوری آبادی میں ”انسانِ کامل“ کہلائے جانے کے آپ -صلى الله علیه وسلم- ہی مستحق ہیں اور عیسائی سائنسداں نے جب تاریخ عالم میں ایسے شخص کو جو اپنی شخصیت کے جگمگاتے اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے نمبر پر رکھ کر اپنی کتاب کاآغاز کرنا چاہا تو اس نے دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام اوراپنے من پسند کسی سائنسداں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس کی نظر انتخاب اسی پر پڑی اور اسی سے اپنی کتاب کاآغاز کیا جسے دنیا حضرت محمد -صلى الله علیه وسلم- کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لئے آپ -صلى الله علیه وسلم- کی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک کامل نمونہ ہے اور اس میں ایسا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور جب کوئی ”یرقانی“ نظر والے آپ -صلى الله علیه وسلم- کی زندگی میں کسی کمی کو تلاش کریں تو حقیقت پسند شاعر یہ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہوگا۔

فرق آنکھوں میں نہیں، فرق ہے بینائی میں

عیب میں عـیب، ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں

                انٹرنیٹ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے شکوک وشبہات کاازالہ اور فتنوں کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ فتنے کے شوشے چھوڑ دیتے ہیں ان کا منظم و منصوبہ بند طریقہ پرجواب دیا جائے کسی وجہ سے اگر علماء براہِ راست انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو ان کا علمی تعاون حاصل کرکے جواب کی اشاعت عمل میں لائی جاسکتی ہے، زندگی کا کارواں جب چلتا ہے تو گرد و غبار کا اٹھنا لازمی ہے؛ لیکن منزل کی طرف رواں دواں رہنے ہی میں منزل پر پہنچا جاسکتا ہے؛ لیکن اس کے لئے قدم میں طاقت اور دست و بازو میں قوت چاہئے۔ ع

اس بحرِ حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک

جو موجِ بلاء کا خوگر ہو رخ پھیرسکے طوفانوں کا

$ $ $

---------------------------------

دارالعلوم ، شماره : 4 ، جلد : 92 ربیع الثانی 1429ھ مطابق اپریل ۲۰۰۸ء